Women Teaching & Giving Dawah
No. 9 – No Problem with Women Gathering in a Place and Learning What is Obligatory of Sharia Knowledge
Translated
By
Abbas Abu Yahya
Fatwa Shaykh Muhammad bin Nasiruddeen Al-Albaani
-Rahimahullaah- (d. 1420 A.H.)
The explanation of the ruling of a woman going to summer camps and Qur’aan learning centres and giving Dawah to Allaah
‘We heard your Fatwa in the cassette ‘Liqa Bilkuwait’ that it is not allowed for a woman to go out for Dawah to Allaah, in fact, women come to her to learn from her, is this the same as in the situation when a woman goes out to learn and benefit from Islamic summer camps or Qur’aan schools.
Shaykh Muhammad bin Nasiruddeen Al-Albaani -Rahimahullaah- (d. 1420 A.H.) answered:
The answer:
‘This ‘going out’, is permissible, if the Islaamic summer camps are specific for women or Qur’aan schools specific for women.
As for this ‘going out’, then its proof came in Saheeh al-Bukhari that some of the women said to the Prophet sallAllaahu alayhi wa ahli wa sallam, and the meaning of the Hadeeth is, that the men have taken all the goodness from you, so can you specify a day for us that you come to us, O Messenger of Allaah.
The Prophet specified a day for them, so that they could learn knowledge from him -alayhi as-Salat wa as-Salam. This is why if the woman goes out to a Masjid, where the Ayaat of Allaah are recited and that the worshippers of Allaah are reminded and for teaching Sharia knowledge, and due to that, women at the time of the Prophet -sallAllaahu alayhi wa sallam- would go out to the Masajid, and all of this whilst knowing that the Prophet -sallAllaahu alayhi wa sallam- had indeed rightly said: ‘Their homes are better for them.’
Women’s prayer in the homes is better and preferable for them, than the prayer in the Masajid, except in a situation where there is a lesson or knowledge by which women benefit and there is no one to teach the women in their homes that knowledge, then here it becomes such that women going out to the Masajid is a legislated matter and encouraged.
Likewise going to Qur’aan schools with the previously mentioned conditions, and the condition is that this centre is specific for women where they keep away from freely mixing with men.
When I asked about the Islaamic summer camps are they specific to men or women or combined with men and women, then we see that if the reply is, it is specific for women then there is nothing to prevent this.
This is because going out to learn knowledge is permissible and I mentioned previously that women used to go out to a place where they used to gather where the Prophet -sallAllaahu alayhi wa sallam- used to teach them.
As for the condition indicated to in the question, then that is specific to women who resemble men and they call themselves ‘Da’eeyaat’. So, you see them or are seen once here and then in another place, going around as if they were men then this is what is not allowed.
As for women gathering in one place and learning that which is obligatory upon them of Sharia knowledge, then for this there is no problem, and I previously mentioned the Hadeeth which aids this.’
[Taken from Fatawa Jeddah
https://www.alathar.net/home/esound/index.php?op=codevi&coid=88667]
Arabic
رقم 9
الشيخ محمد ناصر الالباني / فتاوى جدة
فتاوى جدة-25
بيان حكم خروج المرأة إلى المراكز الصيفية ومراكز تحفيظ القرآن للتعلم والدعوة إلى الله. حفظ
الشيخ : سمعنا فتواكم في شريط لقاء بالكويت أنه لا ينبغي للمرأة أن تخرج للدعوة إلى الله بل يأتيها النساء ليتعلمن منها، فهل هذا ينطبق في حالة خروج المرأة للدعوة إلى الله وللتعلُّم والاستفادة، مثال المراكز الصيفية أو مراكز تحفيظ القرأن.
هنا لا بد من لفت النظر إلى بعض ما جاء في هذا السؤال حيث جاء في منتصفه فهل هذا ينطبق في حالة خروج المرأة للدعوة إلى الله وللتعلّم، فكلمة للدعوة إلى الله فهذا قد سبق جوابه في ذلك الشريط أي هي لا تخرج للدعوة إلى الله فإذا كان السؤال للتعلّم كما جاء بعد هذه الجملة التي ينبغي حذفها، إذا كان خروج المرأة للتعلّم والاستفادة فأقول هذا الخروج جائز ولكن أشكل علي ما جاء في بقية السؤال مثال المراكز الصيفية، أنا لا أدري ما هذه المراكز الصيفية، هل هي خاصة بالرجال أم بالنساء أم يجمع الجنسين فإن كان الأمر الأخير فلا يجوز لهن الخروج إنما يخرجن فقط إلى المساجد او مراكز تحفيظ القرأن إذا كانت هذه المراكز خاصة بالنساء دون الرجال، أصحح السؤال لألخّص الجواب.
سمعنا فتواكم في شريط لقاء بالكويت أنه لا ينبغي للمرأة أن تخرج للدعوة إلى الله بل يأتيها النساء ليتعلمن منها فهل هذا ينطبق في حال خروج المرأة للتعلّم والاستفادة من المراكز الصيفية أو مراكز تحفيظ القرأن.
الجواب هذا الخروج يجوز إذا كانت المراكز الصيفية خاصة بالنساء أو مراكز تحفيظ القرأن كذلك خاصة بالنساء، أما هذا الخروج فدليله ما جاء في “صحيح البخاري” أن بعض النسوة قلن للنبي صلى الله عليه وأله وسلم معنى الحديث أن الرجال ذهبوا بكل خير منك فهل تجعل لنا يوما تأتينا يا رسول الله فيه فخص لهن يوما يتعلمن منه العلم عليه الصلاة والسلام ولذلك فإذا خرجت المرأة إلى مسجد تتلى فيه أيات الله ويُذكّر بها عباد الله ويُعلّمون العلم الشرعي فمن أجل ذلك كانت النساء في عهد النبي صلى الله عليه وأله وسلم يخرجن إلى المساجد مع العلم بأن النبي صلى الله عليه وأله وسلم قد قال في حقهن ( وبيوتهن خير لهن ) صلاة النساء في البيوت خير لهن وأفضل لهن من الصلاة في المساجد إلا في حالة كون هناك درس أو علم تنتفع النساء به ولا يكون في بيوت النساء من يعلمنهن ذلك العلم فحينذاك يصبح خروجهن إلى المساجد أمرا مشروعا مرغوبا فيه، وكذلك مراكز تحفيظ القرأن بالشرط المذكور أنفا ألا وهو أن يكون هذا المركز خاصا بالنساء بحيث يتحاشين اختلاطهن مع الرجال، هذا خلاصة هذا السؤال الثاني.
السائلة : … .
الشيخ : سبق الجواب عن هذا لمّا تساءلت عن المراكز الصيفية هل هي خاصة بالرجال أم بالنساء أم بالرجال والنساء فإذا كان الجواب إنها خاصة بالنساء فلا مانع من ذلك لأن هذا الخروج للتعليم وقد صحّحت السؤال أن خروجها للتعليم فهو جائز وقد ذكرت أنفا أن النساء كن يخرجن إلى مكان يجتمعن فيه ليعلمهن النبي صلى الله عليه وأله وسلم أما الشريط المشار إليه في أول هذا السؤال فهو خاص في النساء اللاتي يتشبهن بالرجال ويُسمين أنفسهن بالداعيات فتراهن أو ترينهن مرة ها هنا ومرة ها هنا منطلقات كأنهن الرجال فهذا هو المحظور أما أن تجتمع النساء في مكان واحد يتعلمن ما يجب عليهن من العلم الشرعي فهذا لا مانع منه وقد ذكرت أنفا الحديث الذي يؤيّد ذلك.
https://www.alathar.net/home/esound/index.php?op=codevi&coid=88667
Urdu
نمبر9
فتاویٰ شیخ محمد بن ناصرالدین البانی رحمہ اللہ (متوفی 1420ھ)
عورتوں کا گرمیوں کے سنٹر اور حفظ قرآن کے مراکز و سنٹر میں تعلیم حاصل کرنے اور الله تعالی کی طرف دعوت دینے کے لیے نکلنے کے حکم کی وضاحت۔
شیخ: ہم نے آپ کا فتویٰ کویت میں ملاقات کے وقت کیسٹ میں سنا ہے کہ عورتیں دعوت الی الله کے لیے باہر نہ نکلیں ان کے یہ کام لائق نہیں ھے ، بلکہ عورتیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان (معلمات) کے پاس آئیں، کیا یہ بات ان عورتوں کے معاملے میں بھی لاگو ہوتی ہے جو دعوت الی الله اور تعلیم کے لیے اور فائدہ اٹھانے کے لیے (نکلتی ہیں ؟)جیسے سمر سنٹرز یا قرآن حفظ کرنے کے مراکز؟ یہاں اس سوال میں کچھ چیزیں قابل توجہ ھے جو اس کے درمیان میں آئیں ہیں ‘ کیا وہ موافقت رکھتی ہیں اس حالت میں کہ کیا عورت نکل سکتی ہے الله کی طرف دعوت دینے کی غرض سے اور تعلیم کے لیے ۔ لہٰذا جو الله کی طرف دعوت دینے کا کلمہ ہے، اس کا جواب اس کیسٹ میں پہلے ہی دیا جاچکا ہے، یعنی وہ دعوت الی الله کے لئے باہر نہیں نکل سکتی، اور اگر سوال ھے تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں جیساکہ وہ اس جملے کے بعد آیا ہے تو اسے حذف کردینا چاہیے۔یعنی اگر عورت تعلیم حاصل کرنے اور فائدہ حاصل کرنے کے لیے باہر نکلتی ہے، تو میں کہتا ہوں (ان کاموں کے لیے ) باہر جانا اس کے لیےجائز ہے، لیکن باقی سوال مراکز الصیفیہ میں مجھے اشکال ہے ، یعنی مجھے نہیں معلوم کہ یہ سمر سینٹرز کیا ہیں ؟کیا یہ سینٹرز مردوں کے لیے مخصوص ہیں یا عورتوں کے لیے مخصوص ہیں، یا پھر وہاں مردوں اور عورتوں کا اختلاط والا معاملہ ہے؟ اور اگر بعد والا معاملہ ھے یعنی مردوں اور عورتوں کا اختلاط ھے تو عورتوں کا گھر سے نکلنا (اور وہاں جانا) جائز نہیں۔ عورتیں صرف مساجد یا قرآن مجید حفظ کرنے کے مراکز کی طرف نکل سکتی ہیں ، (بشرطیکہ)اگر یہ مراکز خواتین کے لیے مخصوص ہوں مردوں کے لیے نہ ہوں ، تو میں جواب کا خلاصہ کرنے کے لیے سوال کو درست کرتا ہوں۔
ھم نے آپ کا فتوی سنا جو آپ کی ملاقات ہوئ کویت میں اس کیسٹ میں کہ عورت کے لیے الله تعالی کی طرف دعوت دینے کیلئے (گھرسے) نکلنا جائز نہیں ھے بلکہ عورتوں کو اس (معلمہ) کے پاس آنا چاہیے تاکہ وہ اس سے علم حاصل کریں ‘
کیا یہ چیز موافقت نہیں رکھتی اس حالت میں کہ عورت (گھر سے) نکلے تعلیم حاصل کرنے کے لیے اور استفادہ کے لیے سمر سنٹرز سے اور قرآن کے حفظ مراکز سے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہ گرمی کے سینٹر مخصوص ہیں عورتوں کے لیے یا وہ قرآن کے حفظ کے مراکز ،ایسے ہی عورتوں کے لئے مخصوص ہیں تو عورتوں کا گھر سے نکلنا جائز ہے۔ اور اس نکلنے کی دلیل صحیح بخاری سے لی گئی ہے جس کا معنی یہ ھے کہ بے شک کچھ عورتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مرد حضرات ساری کی ساری بھلائیاں آپ سے لے جاتے ہیں ,تو اے الله کے رسول کیوں نہیں آپ ہمارے لیے کوئی دن مقرر کر دیتے ‘ کہ ھم اس دن میں آپ کے پاس حاضر ہوا کریں (علم کے حصول کیلئے )تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں کے لئے بھی ایک دن مخصوص کر دیا تاکہ وہ بھی آکر نبی علیہ الصلاۃ والسلام سے علم حاصل کرسکیں،
یہاں پر جب عورت اس مسجد کی طرف جانے کے لیے نکلتی ہے جس میں الله تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے جس میں اللہ کے بندوں کو نصیحت کی جاتی ہے اور شرعی علم پڑھایا جاتا ہےاور اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی عورتیں مسجد کی طرف علم کے حصول کیلئے جایا کرتی تھیں –
کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا ان عورتوں کے حق میں کہ ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں عورتوں کی نماز گھروں میں ہی ان کے لیے بہتر ہے اور یہ زیادہ افضل ہے مسجدوں میں جاکر نماز ادا کرنے سے الا یہ کہ وہاں کوئ درس ہو یا علمی کوئ مجلس ہو کہ جس سے عورتوں کو فائدہ حاصل ہو، یا پھر ان عورتوں کے گھروں میں کوئی ایسا علم رکھنے والا نہ ہو جو ان کو تعلیم دے سکے ، تو اس وقت عورتوں کا مساجد کی طرف نکلنا اور جانا مشروع امر ہوگا اور اس میں رغبت دلائ جائے , اور اسی طرح وہ مراکز جس میں قرآن کے حفظ کی کلاسز ہوں جو ابھی میں نے شرط ذکر کی ہےکہ وہ مرکز اور سینٹر عورتوں کے لیے مخصوص ہوں اور وہاں مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہ ہو ۔( یعنی ان شرائط کے ساتھ عورت باہر نکل سکتی ہے)
یہ تھا سوال کے دوسرے حصے کا خلاصہ۔
سائلہ کا جواب دیتے ہوئے الشیخ ناصرالدین البانی فرماتے ہیں کہ اس کا جواب پہلے گزر چکا ھے جو مراکز الصیفیۃ کے بارے میں دریافت کیا تھا کہ کیا یہ سینٹر و مراکز مردوں کے لیے مخصوص ہیں یا خواتین کے لیے یا پھر ان مراکز میں مرد و زن کا اختلاط ہے اگر تو اس کا جواب ہے کہ یہ عورتوں کے لئے ہی مخصوص ہیں تو اس میں (کسی قسم کی) کوئی ممانعت نہیں ہے کیونکہ یہ جو ان کا نکلنا ہے یہ تعلیم کے لئے ہے۔ تو تحقیق میں نے سوال کو صحیح کر دیا کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے عورتوں کا گھر سے نکلنا جائز ہے ۔جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ عہد نبوی میں بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جگہ عورتیں جمع ہو جایا کرتی تھیں ،
رہی وہ بات جس کی طرف اس سوال کے شروع میں اشارہ کیا گیا ہے، وہ خاص ان عورتوں کے متعلق ھے جو مردوں کے ساتھ مشابہت رکھتی ہیں , اور وہ اپنے آپ کو داعیات کہلاتی ہیں اور تم مرد اور خواتین ان کو دیکھتے ہو کہ وہ کبھی یہاں اور کبھی وہاں (جاتی ہیں) .
وہ ایسے چلتی پھرتی نظر آتی ھیں گویا کہ جیسے وہ مرد ہی ہوں۔ یہ چیز مممنوع ہے اور اسی چیز سے روکا گیا ھے۔ رہی یہ بات کہ وہ ایک جگہ پر اکٹھی ہوں اور جو ان پر شرعی علم واجب ہے وہ علم حاصل کریں تو یہ چیز ان (عورتوں کیلیے) بالکل بھی ممنوع نہیں ہے اور ابھی میں نے جو حدیث ذکر کی ھے وہ اسی بات کی تائید کرتی ہے