Bitesize Ramadan 1446 A.H. – 2025
Day 10
Why Did Allaah Hide the Punishment in the Grave Away from Humans?
لماذا اخفى الله عــذاب القبــر عن البشر؟
By the illustrious scholar
Shaykh Muhammad bin Salih al-Uthaymeen
-Rahimahullaah-
(d. 1421 A.H.)
Translated By Abbas Abu Yahya
The great scholar al-Uthaymeen -Rahimahullaah- said:
‘Punishment in the grave was from the matters of the unseen, due to some wisdom, and from them are:
First: that Allaah Subhanahu wa Ta’ala is the most Merciful of those who show mercy.
Therefore, if we were to view punishment in the grave, we would not be able to survive being alive, because if a person were to see his father, or his brother, son, or wife or close relative being punished in the grave and he was not able to free them from it, then he would become distressed and turbulent. This is from the blessings of Allaah Subhanahu.
Second : Exposing punishment in the grave would be a humiliation and exposing the deceased.
This is because if Allaah had protected and covered this person, and we did not know how his sins which were between him and his Lord Azza wa Jal, then he died and Allaah caused us to see him being punished, then this would be a dreadful disgrace and shameful for the deceased.
So, covering up the deceased is a mercy from Allaah.
Third: It would be difficult for a person to bury the deceased as was mentioned by the Prophet -alayhi as-Salat wa Salam:
لولا ألا تدافنوا لسألت الله أن يسمعكم من عذاب القبر
‘If the case was such that you were not buried, I would have indeed asked Allaah to let you hear the punishment in the grave.’
[Collected by Muslim]
This hadeeth shows that burying could perhaps be difficult to carry out and unbearable, and the people would not be able complete a burial, so if a person is deserving of the punishment of the grave, he would be punished even if he was on the surface of the earth.
However, perhaps some people might presume that punishment will not occur except in the circumstances of burial then people will not bury each other.
Four: If the punishment of the grave was apparent and witnessed, then having Eemaan in that would not have a distinction, because it would be witnessed and not possible to reject.
Also, perhaps it could cause all the people to believe, due to the the saying of Allaah Ta’ala:
فلما رأوا بأسنا قالوا آمنا بالله وحده
<<So, when they saw Our punishment, they said: We believe in Allaah Alone>>
[Ghafir: 84]
Therefore, if people saw the buried people and heard them screaming, they would believe in Allaah and no one would disbelieve because they would have certainty of the punishment, and actually see it with their own eyes and it would seem as if the punishment came to them.
The wisdoms of Allaah Subhanahu wa Ta’ala are great. The real believer is the one who is absolutely, certain with what Allaah has informed him, more than what he would be certain with of what he sees with his own eyes.
This is because what Allaah Azza wa Jal has informed us with is not exposed to possibilities of presumptions nor lying. As for what you see with your own eyes then it is possible that a person presumes matters.
How many people say they have witnessed that they have seen the crescent moon where-as it turns out to be a star.
How many people testify that they have seen the crescent, and it turns out to be a white hair on his eyebrow and this is presumption.
How many people say that they have seen a ghost, they say oh!! it is a man approaching and it turns out to be a date tree.
How many people see a stationary person and they see him as moving, and a moving person as stationary, however, what Allaah has informed us with, is not open to subjectivity to any presumption whatsoever.
We ask Allaah for ourselves and yourselves to make us steadfast. What Allaah has informed us with is stronger than witnessing matters, along with the great benefits for the creation of what Allaah screens off for us.
And Allaah knows best.’
[Majmoo al-Fatawa – Shaykh ibn Uthaymeen 2/32]
Arabic Reference
9 يوم ال 9 – لماذا اخفى الله !! عــذاب❕القبــر❕عن البشر؟
فتاوى وفوائد ابن عثيمين:
لماذا اخفى الله !! عــذاب❕القبــر❕عن البشر؟ وما الحكمة ؟
قال العلامة ابــن_عثيميــن رحمه الله:
والحكمة من جعله من أمور الغيب هي:
أولاً : أن الله سبحانه وتعالى أرحم الراحمين فلو كنا نطلع على عذاب القبور لتنكد عيشنا، لأن الإنسان إذا اطّلِع على أن أباه ،
أو أخاه ، أو ابنه ، أو زوجه ، أو قريبه يعذب في القبر ولا يستطيع فكاكه ، فإنه يقلق ولا يستريح . وهذه من نعمة الله سبحانه .
ثانياً : أنه فضيحة للميت فلو كان هذا الميت قد ستر الله عليه ولم نعلم عن ذنوبه بينه وبين ربه عز وجل ثم مات وأطلعنا الله على عذابه ، صار في ذلك فضيحة عظيمة له ففي ستره رحمة من الله بالميت .
ثالثاً : أنه قد يصعب على الإنسان دفن الميت كما جاء عن النبي عليه الصلاة والسلام :
” لولا ألا تدافنوا لسألت الله أن يسمعكم من عذاب القبر”
رواه مسلم 2868 .
ففيه أن الدفن ربما يصعب ويشق ولا ينقاد الناس لذلك ،
وإن كان من يستحق عذاب القبر عذب ولو على سطح الأرض ،
لكن قد يتوهم الناس أن العذاب لا يكون إلا في حال الدفن فلا يدفن بعضهم بعضاً.
رابعاً: أنه لو كان ظاهراً لم يكن للإيمان به مزية لأنه يكون مشاهداً لا يمكن إنكاره ، ثم إنه قد يحمل الناس على أن يؤمنوا كلهم لقوله تعالى :
( فلما رأوا بأسنا قالوا آمنا بالله وحده ) غافر / 84 ،
فإذا رأى الناس هؤلاء المدفونين وسمعوهم يتصارخون آمنوا وما كفر أحد لأنه أيقن بالعذاب ، ورآه رأي العين فكأنه نزل به .
وحِكَم الله سبحانه وتعالى عظيمة ، والإنسان المؤمن حقيقة هو الذي يجزم بخبر الله أكثر مما يجزم بما شاهده بعينه ؛ لأن خبر الله عز وجل لا يتطرق إليه احتمال الوهم ولا الكذب ، وما تراه بعينيك يمكن أن تتوهم فيه ، فكم من إنسان شهد أنه رأى الهلال، وإذا هي نجمة ، وكم من إنسان شهد أنه رأى الهلال وإذا هي شعرة بيضاء على حاجبه وهذا وهم ، وكم من إنسان يرى شبحاً ويقول:هذا إنسان مقبل، وإذا هو جذع نخلة ، وكم من إنسان يرى الساكن متحركاً والمتحرك ساكناً ، لكن خبر الله لا يتطرق إليه الاحتمال أبداً.
نسأل الله لنا ولكم الثبات ، فخبر الله بهذه الأمور أقوى من المشاهدة ، مع ما في الستر من المصالح العظيمة للخلق . والله أعلم .”
المصدر : مجموع فتاوى الشيخ بن عثيمين 2/32
Urdu Translation By the Translation Team
دسواں دن
*اللہ نے عذابِ قبر کو انسانوں سے کیوں چھپایا!!*
اللہ نے عذابِ قبر کو انسانوں سے کیوں چھپایا؟ اور اس میں کیا حکمت ہے؟
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذابِ قبر کو غیب کے امور میں رکھنے کی حکمت یہ ہے:
اولاً: اللہ سبحانہ وتعالیٰ سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ اگر ہمیں قبروں کا عذاب نظر آتا تو ہماری زندگی پریشان کن ہوجاتی، کیونکہ اگر انسان دیکھتا کہ اس کے باپ، بھائی، بیٹا، بیوی یا کسی قریبی رشتہ دار کو قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے اور وہ اسے چھڑانے پر قادر نہیں، تو وہ بےچین ہوجاتا اور اسے سکون نہ ملتا۔ یہی اللہ سبحانہ کی ایک نعمت ہے۔
ثانياً: یہ میّت کے لیے رسوائی کا سبب بنتا۔ اگر اللہ نے کسی میّت کے گناہوں پر پردہ ڈال رکھا ہو اور ہمیں ان کے گناہوں کا علم نہ ہو، جو ان کے اور ان کے رب عز وجل کے درمیان تھے، پھر وہ فوت ہوجائے اور اللہ ہمیں اس کے عذاب پر مطلع کردے، تو یہ اس کے لیے بہت بڑی رسوائی ہوگی۔ پس اللہ کا اس پر پردہ ڈالنا، میّت کے لیے اس کی رحمت کا مظہر ہے۔
ثالثاً: اس سے میّت کو دفن کرنا مشکل ہوجاتا، جیسا کہ نبی علیہ الصلاة والسلام سے مروی ہے:
“لولا ألا تدافنوا لسألت الله أن يسمعكم من عذاب القبر” (مسلم: 2868)
[ترجمہ: اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ تم ایک دوسرے کو دفن کرنا چھوڑ دوگے، تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذابِ قبر سنوا دے۔]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ (اگر لوگ عذابِ قبر کو سن لیتے)، تو میّت کو دفن کرنا ان کے لیے سخت اور دشوار ہوجاتا، اور لوگ اس عمل سے گریز کرتے۔ حالانکہ جو شخص عذابِ قبر کا مستحق ہوتا ہے، وہ زمین کی سطح پر ہی کیوں نہ ہو، اسے عذاب ضرور دیا جاتا ہے۔ لیکن لوگوں کے ذہن میں یہ غلط فہمی پیدا ہوسکتی تھی کہ عذاب صرف دفن ہونے کی صورت میں ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو دفن ہی نہ کرتے۔
رابعاً: اگر عذابِ قبر ظاہر اور مشاہدے میں آتا، تو اس پر ایمان لانے کی کوئی فضیلت نہ ہوتی، کیونکہ وہ ایک مشہود حقیقت بن جاتا جس کا انکار ممکن نہ رہتا۔
مزید یہ کہ اس کا ظاہری ہونا لوگوں کو مجبور کر دیتا کہ وہ سب کے سب ایمان لے آئیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“فلما رأوا بأسنا قالوا آمنا بالله وحده” (غافر: 84)
[ترجمہ: ہمارا عذاب دیکھتے ہی کہنے لگے کہ اللہ واحد پر ہم ایمان ﻻئے۔]
اگر لوگ دفن شدہ میّتوں کو دیکھتے اور ان کو چیختے ہوے سنتے(ان کے چیخنے کی آوازیں سنتے)، تو وہ سب ایمان لے آتے، اور کوئی کفر کا ارتکاب نہ کرتا، کیونکہ وہ عذاب کا یقین کر لیتا، اور اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا، گویا وہ خود اس میں مبتلا ہو چکا ہو۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حکمتیں بے حد عظیم ہیں، اور حقیقی مؤمن انسان وہی ہے جو اللہ کی دی ہوئی خبر پر اس سے زیادہ یقین رکھے جتنا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھی ہوئی چیز پر کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ عز وجل کی دی ہوئی خبر میں نہ وہم کا کوئی احتمال ہوتا ہے اور نہ ہی جھوٹ کا، جبکہ آنکھوں سے دیکھی گئی چیز میں وہم کا امکان ہوتا ہے۔ پس کتنے ہی لوگ چاند دیکھنے کی گواہی دیتے ہیں، حالانکہ وہ درحقیقت ایک ستارہ ہوتا ہے۔ اور کتنے ہی لوگ چاند دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، جبکہ وہ دراصل ان کے ابرو پر پڑی ہوئی سفید بال ہوتی ہے، اور یہ محض ایک وہم ہوتا ہے۔
اور کتنے ہی لوگ کسی دھندلے سائے کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی آدمی آرہا ہے، مگر حقیقت میں وہ محض ایک (کھجور کے) درخت کا تنا ہوتا ہے۔ اور کتنے ہی لوگ ساکن چیز کو متحرک اور متحرک چیز کو ساکن سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن اللہ کی خبر میں کسی قسم کا شک، شبہ یا وہم کا کوئی احتمال نہیں ہوتا۔
ہم اللہ سے اپنے لیے اور آپ کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرتے ہیں، پس ان امور کے بارے میں اللہ کی دی ہوئی خبر مشاہدے سے بھی زیادہ قوی اور یقینی ہے۔
ساتھ ہی، اللہ کے پردہ رکھنے میں مخلوق کے لیے عظیم حکمتیں اور فوائد ہیں۔ واللہ أعلم۔
(مصدر: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين 2/32)