Skip to content

No. 7 How can a woman be a Caller to Allaah?

Women Teaching & Giving Dawah

No. 7

How can a woman be a Caller to Allaah?

Translated

By

Abbas Abu Yahya



 




Fatwa Shaykh Muhammad bin Salih al-Uthaymeen
– May Allaah have mercy upon him- (d. 1421 A.H.)

Question:
How can a woman be a caller to the Deen of Allaah, what are the means to aid that, and which books should one begin with to acquire Sharia knowledge?

Shaykh Muhammad bin Salih al-Uthaymeen
– May Allaah have mercy upon him- (d. 1421 A.H.) answered:

‘The woman is a caller (Da’eeyah) exactly like a man if she has knowledge of the Sharia of Allaah, if she does not have knowledge, then it is not permissible for her to speak without knowledge, due to the statement of Allaah Ta’ala:
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
<< Say: “(But) the things that my Lord has indeed forbidden are Al¬Fawâhish (great evil sins, every kind of unlawful sexual intercourse, etc.) whether committed openly or secretly, sins (of all kinds), unrighteous oppression, joining partners (in worship) with Allaah for which He has given no authority, and saying things about Allaah of which you have no knowledge.” >>[Al-A’raaf:33]

Also, the saying of Allaah Ta’ala:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
<< And follow not (O man i.e., say not, or do not or witness not, etc.) that of which you have no knowledge (e.g. one’s saying: “I have seen,” while in fact he has not seen, or “I have heard,” while he has not heard). Verily! The hearing, and the sight, and the heart, of each of those you will be questioned (by Allaah).>> [Al-Isra: 36]

Also, the saying of Allaah Ta’ala to His Prophet -sallAllaahu alayhi wa sallam:
قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ
<< Say: “This is my way; I invite unto Allaah (i.e. to the Oneness of Allaah – Islaamic Monotheism) with sure knowledge, I and whosoever follows me (also must invite others to Allaah i.e to the Oneness of Allaah – Islaamic Monotheism) with sure knowledge. And Glorified and Exalted be Allaah (above all that they associate as partners with Him). And I am not of the Mushrikoon >> [Yusuf:108]

Secondly: that she should have the capability to speak with what she knows.

Thirdly: that she should have the capability to debate the one who opposes, because perhaps a person stands up to oppose what she calls to, and that person has eloquent speech and explanation so she overwhelms the female caller (Da’eeyah) with her eloquent speech and explanation due to her weak defence and the strength of her falsehood. So, it is necessary that she has the capability to debate the one who opposes.


As for what to begin with, then the best thing a student of knowledge to begin with is the Book of Allaah Azza wa Jal, to memorise it, reflect upon its meanings, and to call the people to the Deen of Allaah Ta’ala with the Qur’aan, then with what is authentic from the Prophet -sallAllaahu alayhi wa sallam- indeed the Sunnah explains the Qur’aan, clarifies it and clarifies the Tafseer of it. The Sunnah is the twin of the Qur’aan in that it is obligatory to act upon it.
Then study the books of Aqeedah and Tawheed especially if there is a country in which there is a lot of Shirk and false Aqeedah. Then with the books of the people of knowledge, like Fiqh according to what is easy for her. What is better is that she enquires about every issue particularly, meaning that she asks the people of knowledge so that can be a more precise answer.

[https://binothaimeen.net/content/12952]




Arabic


رقم 7
لفضيلة الشيخ / محمد بن صالح العثيمين
9 – الجزء الثالث : كيف تكون المرأة داعية
كيف تكون المرأة داعية
السؤال: هذه السائلة عائشة من جمهورية مصر العربية بور سعيد استعرضنا سؤالاً لها في حلقةٍ ماضية بقي لها هذا السؤال تقول كيف تكون المرأة داعية لدين الله وما هي الأسباب المعينة على ذلك وما الكتب التي أبدأ بها في تحصيل طلب العلم الشرعي؟
الجواب
الشيخ: تكون المرأة داعية كالرجل تماماً إذا كان لديها علم بشريعة الله فإن لم يكن لديها علم فلا يحل لها أن تتكلم بلا علم لقول الله تعالى (قل إنما حرم ربي الفواحش ما ظهر منها وما بطن والإثم والبغي بغير الحق وأن تشركوا الله ما لم ينزل به سلطانا وأن تقولوا على الله ما لا تعلمون) ولقوله تعالى (ولا تقف ما ليس لك به علم إن السمع والبصر والفؤاد كل أولئك كان عنه مسئولا) ولقوله تعالى لنبيه صلى الله عليه وعلى آله وسلم (قل هذه هي سبيلي أدع إلى الله على بصيرة أنا ومن اتبعني وسبحان الله وما أنا من المشركين)
ثانياً أن يكون لديها قدرة على التكلم بما علمت
ثالثاً أن يكون لديها قدرة على مجادلة المعارض لأنه قد يقوم شخص معارضٌ لما تدعو إليه ويكون لديه فصاحة وبيان فيغلب بفصاحته وبيانه على هذه الداعية لضعف دفاعها وقوة باطله فلا بد أن يكون لديها قدرة على مجادلة المعارض وأما ما تبدأ به فخير ما يبدأ به طالب العلم كتاب الله عز وجل أن يحفظه ويتدبر معانيه ويدعو الناس إلى دين الله تعالى به ثم ما صح عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم فإن السنة تبين القرآن وتوضحه وتفسره وهي شقيقة القرآن في وجوب العمل بها ثم بكتب العقيدة والتوحيد لا سيما إذا كان في بلدٍ يكثر فيه الشرك والعقيدة الباطلة ثم بما كتبه أهل العلم من الفقه حسبما يتيسر لها والأحسن أن تسأل عن كل مسألةٍ بعينها أي تسأل أهل العلم ليكون ذلك أدق في الجواب.
المصدر الموقع الرسمي لفضيلة الشيخ / محمد بن صالح العثيمين



https://youtu.be/vLP6JyFXB3g?si=xaTahACU05kk2EHb

Urdu

نمبر7
فتاویٰ شیخ محمد بن صالح العثیمین اللہ تعالی ان پر رحم فرمائے – (متوفی 1421 ھ)
عورت دین کی داعیہ کیسے بن سکتی ھے ؟

عائشہ مصر العربیہ بورسعید سے سوال کرتی ہے ہم نے اس کا یہ سوال سابقہ پروگرام میں بھی کیا تھا اس کا بقیہ سوال یہ ہے کہ ایک عورت الله کے دین کی داعیہ کیسے بن سکتی ھے ، اور کون سے ذرائع اس دعوت کے کام میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں، نیز کونسی کتابوں سے شرعی علم کے حصول کی ابتدا کی جائے ؟

جواب ۔ عورت مکمل طور پرآدمی کی طرح داعیہ بن سکتی ھے بشرطیکہ اگر اس کے پاس الله تعالی کی شریعت کا (صحیح طور پر )علم ہو تو ،اور اگر اس کے پاس علم نہ ہوتو اس کے لیے جائز نہیں ھے کہ وہ بلا علم بات کرے یعنی اس کے پاس علم نہیں تو اس کے لیے دعوت و تبلیغ کا کام جائز نہیں , الله تعالی کے اس قول کی روشنی میں الله تعالی کا فرمان ہے۔
آپ فرما دیجیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو ناحق کسی پر ظلم کرنے کو ، اس بات کو کہ اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات نہ لگا دو جس کو تم جانتے نہیں.
اور الله تعالی کے اس قول کے پیش نظر۔
>>وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا<<
اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں۔ بے شک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک، اس کے متعلق سوال ہوگا۔
اور الله تعالی کے اس قول کی روشنی میں ۔
>>قل ھذہ سبیلی ادعو الی اللہ علی بصیرۃ انا من اتبعنی و سبحان الله وما انا من المشرکین<<
آپ فرمادیجئے کہ میں اللہ کی طرف اس طور پر بلاتا ہوں کہ میں دلیل پر قائم ہوں میں بھی اور میرے ساتھ والے بھی ، اور الله تعالی پاک ھے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں (سورہ یوسف ، آیت ،۱۰۸)
دوسری بات یہ ھے کہ جو اس نے علم حاصل کیا ھے اس کو بول کر بیان کرنے کی اس کے پاس قدرت و استطاعت ہو،
تیسری بات یہ ھے کہ اپنے مخالف سے بحث و مباحثه کرنےکی اس داعیہ کے پاس قدرت واستطاعت ہو ، کیونکہ ممکن ہے کہ کبھی کوئ شخص کھڑا ہوکر اس کی دعوت کی مخالفت کرے اور اس کے پاس فصاحت و بلاغت اور بیان کا طریقہ بھی ہو تو وہ اس داعیہ پر اپنے بیان اور اپنی فصاحت و بلاغت کے ساتھ اور اسکے کمزور دفاع کیوجہ سے اور اسکی باطل طاقت کی وجہ سے اس کا مخالف اس داعیہ پر(کہیں)غلبہ حاصل کر لے ،
اس لیے یہ ضروری ھے کہ اپنے مخالف سے بحث و مباحثه کرنےکی اس داعیہ کے پاس قدرت و طاقت بھی ہو۔
رہی یہ بات کہ کون سی کتابوں سے ابتدا کرے، تو بہتر یہی ہے کہ ایک طالب علم اللہ تعالی کی کتاب سے ابتداء کرے،
اور وہ اسے حفظ کرے اور اس کے معانی میں غور و فکر اور تدبر کرے ،اور وہ اسی کے ساتھ اللہ تعالی کےدین کی طرف لوگوں کو دعوت دے’پھر اسکے بعدجو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث ہیں (ان سے ابتداء کرے)کیونکہ سنت جو ہے یعنی حدیث جو ھے وہ قرآن مجیدکو کھول کر بیان کرتی ہے، اور حدیث قرآن پاک کی وضاحت ہے اور تفسیر ھے,اسی طرح قرآن و حدیث دونوں پر عمل پیرا ہونا لازم و ملزوم ہے۔ پھر اس کے بعد ایک داعیہ پر یہ بات ضروری ھے کہ وہ عقیدہ اور توحید کی کتابوں کا علم حاصل کرے’ جس علاقے و شہر میں باطل عقائد اور شرک زیادہ پایا جاتا ہو وہاں (توحید اورعقیدے کا علم) زیادہ ضروری ھے ،پھراس کے بعد جو اہل علم نے فقہ کی کتابیں لکھی ہیں جتنا اس کو میسر ہو اس کا علم حاصل کرے،اور یہ اس کے لئے بہت بہتر ہوگا کہ بذات خود اہل علم سے ہر ایک مسئلہ دریافت کرے اس طرح اس کے علم اور جواب دینے میں پختگی آئے گی.

Tags: