Bitesize Ramadan 1446 A.H. – 2025
Day No. 2
The Meaning of the Hadeeth
‘Islaam began as a strange Matter’
Translated
By
Abbas Abu Yahya
Download PDF Day 2 Islam began as a strange matter
By
the illustrious scholar
Shaykh AbdulAziz bin Abdullaah bin Baz
-Rahimahullaah-
(d. 1420 A.H.)
The meaning of the Hadeeth
‘Islaam began as a strange matter and it will return as a strange matter as it began, so give glad tidings to the Ghuraba [the strangers]’
Shaykh AbdulAziz bin Abdullaah bin Baz said:
‘It means that Islaam began as a strange matter as was the condition in Makkah and Madinah and in the beginning of the Hijrah (migration). Likewise Islaam will be an unknown strange matter at the end of time, just as it began, it will not be truly known except by a few people. Islaam will not be acted upon correctly according to the Sharia except by a few people, and they are the Ghuraba [the strangers].
The complete wording of the hadeeth is the saying of the Prophet -sallAllaahu alayhi wa sallam,
فطوبى للغرباء
‘Give glad tidings to the Ghuraba [the strangers].’
Collected by Muslim in his book.
Also, in a narration for other than Imam Muslim, it was asked, O Messenger of Allaah and who are the Ghuraba?’
The Messenger replied,
الذين يصلحون إذا فسد الناس
‘They are those who rectify matters when the people become corrupt.’
In another wording:
هم الذين يصلحون ما أفسد الناس من سنتي
‘They are those who rectify what the people corrupt of my Sunnah.’
We ask Allaah to make us and all our brothers from the Muslims to be from them. Indeed Allaah is the best to request from.’
[Fatawa Islameeyah v.4 p.107]
Arabic Reference
2 يوم الثانى
معنى الحديث {بدأ الإسلام غريبا
معنى الحديث {بدأ الإسلام غريبا وسيعود غريبا كما بدأ فطوبى للغرباء} -لابن باز رحمه الله
غربة الإسلام
س -ما معنى هذا الحديث
{بدأ الإسلام غريبا وسيعود غريبا كما بدأ فطوبى للغرباء} ؟
ج- معناه أن الإسلام بدأ غريباً كما كان الحال في مكة وفي المدينة في أول الهجرة لا يعرفه غريبا فى آخر الزمان كما بدأ لا يعرفه حق المعرفة إلا القليل من الناس، ولا يعمل به على الوجه المشروع إلا القليل من الناس وهم الغرباء وتمام الحديث قوله، – صلى الله عليه وسلم -، {فطوبى للغرباء} رواه مسلم في صحيحه وفي رواية لغير مسلم قيل يا رسول الله ومن الغرباء فقال
{الذين يصلحون إذا فسد الناس} وفي لفظ آخر {هم الذين يصلحون ما أفسد الناس من سنتي} .
نسأل الله أن يجعلنا وسائر إخواننا المسلمين منهم إنه خير مسؤول.
الشيخ ابن باز رحمه الله
كتاب فتاوى اسلامية ج4 ص 107
Urdu` Translation
دوسرا دن:
حدیث: “اسلام کا آغاز غربت (اجنبیت) کی حالت میں ہوا۔” کامعنی ۔
از علامہ امام عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ (وفات: ۱٤٢٠ ھ)
سوال: اس حدیث کا مفہوم کیا ہے: “اسلام کا آغاز غربت (اجنبیت) کی حالت میں ہوا اور عنقریب پھر اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جیسے شروع ہوا تھا، تو اجنبی بن کر رہ جانے والوں کے لیے مسرّت و شادمانی ہو۔”
جواب: اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کا آغاز اجنبیت کی حالت میں ہوا، جیسا کہ مکہ میں اور مدینہ میں ہجرت کے ابتدائی دور میں تھا، جب اسے صرف چند لوگ ہی جانتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ پھر اسلام پھیل گیا، لوگ اس میں جوق در جوق داخل ہوئے اور یہ دیگر تمام مذاہب پر غالب آ گیا۔
اور آخری زمانے یہ پھر سے اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جیسے شروع ہوا تھا، کہ اسے صحیح طور پر جاننے والے کم لوگ ہوں گے، اور اس پر شرعی طریقے سے عمل کرنے والے بہت کم لوگ ہوں گے، اور یہی لوگ “غرباء” ہیں(کہلائیں گے)۔
اور مکمل حدیث نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: “فطوبى للغرباء” (غرباء کے لئے مسرّت و شادمانی ہو)۔ اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔
اور مسلم کے بغیر ایک اور روایت میں آیا ہے: “پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! غرباء کون ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ‘وہ لوگ جو اس وقت نیکی کا دامن پکڑے رہے گیں جب لوگ فساد میں مبتلا ہو جائیں۔’
اور ایک اور روایت میں آیا ہے: “وہ لوگ جو میری سنت میں ان چیزوں کی اصلاح کرتے ہیں جنہیں لوگوں نے بگاڑ دیا ہو۔”
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اور ہمارے تمام مسلمان بھائیوں کو ان میں شامل کرے۔ بے شک وہ بہترین مسئول(جس سے مانگا جائے) ہے۔
مصدر: كتاب فتاوى اسلامية ج4 ص 107