Skip to content

Part 2 Preventing a Woman from Giving Dawah

Women Teaching & Giving Dawah

No. 2

Preventing a Woman from Giving Dawah

Translated

by

Abbas Abu Yahya





No. 2 – Preventing a Woman from Giving Dawah

Fatawa of Shaykh Shaykh Abdul Azeez Bin Baz

– May Allaah have mercy upon him- (d. 1420 A.H.)

The Ruling of Preventing a Woman from Giving Dawah to Allaah in a Gathering of Women

Question:

A female questioner has another question which she asked: How can a woman be a Da’eeyah (female caller) to Allaah -the Mighty and Magnificent- in the path of Allaah, under the shade of family responsibilities which prevent her from leaving the home to attend lessons or lectures. This is because the father always repeats the noble Ayaah, << And stay in your houses >> [Ahzab: 33] so what is the meaning of ‘stay’ here O respected Shaykh?

Shaykh Abdul Azeez Bin Baz – May Allaah have mercy upon him- (d. 1420 A.H.) answered:

‘If a woman has knowledge, then she should give Dawah to Allaah -Subhanahu- even if it is in her home, to her family, visitors and even if it is convenient for her to go out to gatherings of women.

If she has knowledge then it is obligatory upon her father, not to prevent her from attending gatherings of women, as long as she is covered and far from means of Fitnah (trials & tribulations).

The foundation is to remain in the homes, this is the origin, it is more secure and foremost due to the saying of Allaah -the Mighty and Magnificent- <<And stay in your houses>> [Ahzab: 33].

This is because it keeps a woman away from Fitnah, however, her exiting the home for her needs and going out for Dawah to Allaah, or to learn, or for keeping family relations, or to visit a sick person, or to give condolences to the one who is suffering, then for all of these matters there is no problem, it is legislated. As for what is disliked is her going out for other than a need.

As for her going out for a matter in accordance with the Sharia, then this is something which is required. What is obligatory upon fathers and those who are in positions of responsibilities is to aid upon goodness, and if the woman is righteous then aid her upon goodness.

If she is accused that she goes out in the name of good but she wants to commit evil, then this is a situation which needs to be looked into and judged. However, as long as those responsible for her know that she goes out for righteous matters then there is nothing wrong with this.

She goes out to study in which there is no free mixing with men, or to attend gatherings of knowledge among women, or for giving Dawah to Allaah amongst women. If those who are responsible know that when she goes out then there is no problem, so it is obligatory not to prevent her, it is obligatory to aid upon goodness, just like the wives of the Prophet sallAllaahu alayhi wa sallam used to go out for general amenities and specific amenities and they were the ones who were addressed: <<And stay in your houses>> [Ahzab: 33], along with that they went out, they would go out to give condolences to the afflicted, they would go out for wedding parties, and they would go out for other matters of need. They are the example to follow, may Allaah be pleased with them and make them pleased.’

[binbaz.org.sa  https://bit.ly/3bIEHl0]



Arabic

رقم 2

حكم منع المرأة من الدعوة إلى الله في مجامع النساء

السؤال: السائلة لها سؤال آخر تقول: كيف تكون المرأة داعية إلى الله عز وجل، وفي سبيل الله، في ظل ظروف أسرية تمنعها من الخروج من البيت لحضور الدروس أو المحاضرات؛ لأن الوالد يكرر دائمًا الآية الكريمة: وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [الأحزاب:33] فما معنى القرار هنا سماحة الشيخ؟

الجواب: إذا كانت المرأة عندها علم تدعو إلى الله سبحانه ولو في بيتها، مع أهلها ومع الزوار حتى يتيسر لها الخروج إلى مجامع النساء.

والواجب على أبيها إذا كان عندها علم ألا يمنعها من الخروج إلى مجامع النساء، مع التستر والبعد عن أسباب الفتنة، والأصل في البقاء في البيوت هو الأصل هو الأسلم والأولى؛ لقوله جل وعلا: وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [الأحزاب:33]؛ لأنه أبعد للمرأة عن الفتنة، لكن خروجها لحاجتها وخروجها للدعوة إلى الله، أو للتعلم، أو لصلة الرحم، أو لعيادة المريض، أو لتعزية المصاب كل هذا لا بأس به مشروع، وإنما المكروه خروجها من غير حاجة.

أما إذا كان خروجها لأمر شرعي فهذا أمر مطلوب، والواجب على الآباء والأولياء أن يساعدوا على الخير، وإذا كانت المرأة صالحة ساعدوها على الخير.

أما إذا كانت تتهم بأنها تخرج باسم الخير وهي تريد الشر هذا محل نظر ومحل اجتهاد، لكن ما داموا يعرفون أن خروجها خروج صالح ليس فيه شيء؛ وأنها تخرج إلى الدراسة التي ليس فيها اختلاط، أو إلى حضور حلقات العلم بين النساء، أو للدعوة إلى الله بين النساء، إذا كانوا يعلمون أن خروجها لا بأس به، فالواجب عدم منعها، والواجب أن تساعد على الخير، كما كان أزواج النبي صلى الله عليه وسلم يخرجن في المصالح العامة وفي المصالح الخاصة وهن المخاطبات ….. : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ [الأحزاب:33] ومع هذا يخرجن، يخرجن لتعزية المصاب، ويخرجن لحفلات الأعراس، ويخرجن لغير هذا من الحاجات، وفيهن أسوة رضي الله عنهن وأرضاهن. نعم.      المقدم: جزاكم الله خيرًا سماحة الشيخ.

binbaz.org.sa  https://bit.ly/3bIEHl0



 



Urdu

نمبر2
فتوی شیخ بن باز اللہ تعالی ان پر رحم فرمائے – (متوفی 1420 ھ)

عورت کو عورتوں کی مجلس میں اللہ کی طرف دعوت دینے سے روکنے کا حکم

سوال: سائلہ کا ایک اور سوال ہے، وہ کہتی ہیں:اپنے فیملی
والوں کے زیر سایہ میں جو اسے درس یا لیکچر میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنے سے روکتے ہوں تو ایک عورت الله کی طرف کیسےدعوت دے سکتی ہے؟ اس لیے کہ باپ ہمیشہ اس آیت مبارکہ کو دہراتا رہتا ہو
اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔
تو یہاں قرار سے کیا مراد ہے اور اس کا کیا معنی ھے سماحۃ الشیخ ؟
تو سماحۃ الشیخ ابن باز جواب میں فرماتے ہیں ۔
کہ اگر جب عورت کے پاس شرعی علم ہو تو وہ الله سبحانہ و تعالی کی طرف دعوت دے، اگرچہ وہ گھر میں ہی کیوں نہ ہو, اپنے اھل وعیال اور زیارت کرنے والوں کے ساتھ،(دعوت کا آغاز کرلے) یہاں تک کہ اس کے لیے عورتوں کے مجمعے اور مجلس کی طرف بھی نکلنا آسان ہوجاۓ.
اوراس کے باپ پر واجب ھے جب کہ اسکی بیٹی کے پاس علم ھے تو عورتوں کی مجلس میں جانے سے ہرگز نہ روکے.(اور اس داعیہ پر واجب یہ ھے کہ)وہ پردے کا خاص اھتمام کرے اور فتنوں کے اسباب سے دور رہے .اور گھر میں باقی رہنا ہی اصل ھے اور اصل ہی زیادہ محفوظ اور زیادہ لائق و اولی بات ہے.
اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق کہ وَقَرْنَ فِی بُیُوْتِکُنَ اور اے عورتو تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو عورت کے لیے یہی اصل ہے کہ وہ فتنے سے دور رہے اور وہ کسی خاص ضرورت کے تحت (جیسے)الله تعالی کی طرف دعوت دینے کے لیے یا تعلیم حاصل کرنے کے لیے یا صلہ رحمی کےلیے یا بیمار پرسی کے لیےیا تعزیت کرنے کے لیے گھر سے نکل سکتی ھے اس میں کوئ حرج نہیں, عورت کے لیے جائز ھے۔
جبکہ کراہت ضرورت کے علاوہ نکلنے میں ھے اگر عورت کا نکلنا شرعی عذر کے تحت ہو تو یہ امرمطلوب ھے اور والدین اور سرپرستوں پر یہ واجب ھے کہ وہ خیر کے کاموں میں ان کا تعاون کریں .
اگر عورت نیک ہوتو اسکی مدد کی جائے اس خیر پر’ اور اگر عورت خیر کے نام پر گھر سے نکلے مگر برائ کا ارادہ رکھتی ہوتو یہ معاملہ محل نظر ھے اور اس معاملے میں اجتہاد سے کام لیا جائے گا’ لیکن جب یہ بات صحیح طور پرمعلوم ہو کہ وہ نیکی اور خیر کے کام کے لیے ہی گھر سے نکلتی ہے اور اس میں کوئ اور چیز(فتنے والی) نہیں ہے کہ وہ نکلتی ھے پڑھائی کے لیے جس میں مرد و زن کا اختلاط بھی نہ ہو، یا ایسےہی عورتوں کے حلقات میں تعلیم حاصل کرنے کے لیےحاضر ہونا یا پھر عورتوں کے مابین اللہ تعالی کے لیے دعوت دینا، اگر وہ (اس عورت کے گھر والے) اس بات کو جانتے ہیں کہ اس کے نکلنے میں کوئ حرج نہیں ھے تو ان کے گھر والوں پر واجب یہ ھے کہ اسے نکلنے سے منع نہ کریں,اور ان پر واجب یہ ھے کہ اس خیر کے کام پر اس کی مدد کی جائے جیساکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نکلتی تھیں عام لوگوں کی مصلحتوں کی بنا پر اور ایسے ہی خاص مصلحتوں کے تحت بھی گھر سے نکلتی تھیں،اور قرآن پاک میں نبی کریم کی ازواج مطہرات سے خطاب کیا گیا ہے
وَقَرْنَ فِی بُیُوْتِکُنَ کہ اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اس کے باوجود بھی ازواج مطہرات صلی الله علیہ وسلم تعزیت کے لیے، عورتوں کی شادی و بیاہ کی تقریبات کے لیے گھر سے نکلتی تھیں اور اس کے علاوہ بھی اپنی دوسری حاجات کے لیے بھی گھر سے باہر چلی جاتی تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے اندر نمونہ ہیں تمام عورتوں کے لیے، اور یہ ان کے لیے پسند کیا گیا ھے ۔