Skip to content

Part 5 – Is it upon the woman to teach what she learnt even if her environment does not allow it?

Women Teaching & Giving Dawah

No. 5

Is it upon the woman to teach what she learnt even if her environment does not allow it?

Translated

by

Abbas Abu Yahya




Fatawa Shaykh Muqbil bin Hadi al-Wada’aee

– May Allaah have mercy upon him- (d. 1422 A.H.)

Question:

What is the work of the woman who is a Da’eeyah (caller to Islaam) because she says the Messenger of Allaah sallAllaahu alayhi wa sallam said: ‘Convey from me even if it is an Ayaah.’ She also says the Hadeeth: ‘Whoever hides knowledge then he will be reined with it on the Day of Judgement.’ Is it upon the woman to teach what she learnt even if her environment does not allow it?

Shaykh Muqbil bin Hadi al-Wada’aee – May Allaah have mercy upon him- (d. 1422 A.H.) answered:

The Answer:

Allaah Subhanahu wa Ta’ala says:

<< Fear Allaah as much as you can>> [Taghabun: 16]

I advise her to memorise from the book ‘Riyadh as-Saliheen’ and from ‘al-Lua’lua’ wal Marjaan’ in that which Bukhari & Muslim agreed upon, and from the Qur’aanic Ayaat.

She should call to Allaah among women and it is necessary when she sees that she has an effect on them, even if she leaves off some of her duties.

The enemies of Islaam climb to the peaks of mountains, every place, they cross deserts and desolate regions to call the Muslims to atheism or to Christianity or other matters of the communities of disbelief.

Therefore, it is appropriate for us to call to Allaah Subhanahu wa Tala’a, to strive earnestly and work hard. It is not permissible for a woman to be a Khateebah (a lecturer) among men nor a teacher for men since she would be a trial and tribulation as has preceded.

However, she should teach her sisters and teach the young children who do not desire women. As for her standing among men and addressing them and give Dawah to them, then no, this is not allowed. But she should fulfil her obligation among women.

So, we find that majority of Muslim women believe in other than Allaah. You find a woman supplicating to al-Khamsah, and another supplicating to Ali bin Abi Taalib, another one supplicating to al-Hasan and another to al-Hussain, etc.

Then also, you may find women from the Muslims who, when it goes dark, she looks up to the sky and says, look at Allaah how vast He is, so she thinks that the sky is Allaah Subhanahu wa Ta’ala.

Therefore, we are in need of, and you females are in need of seriousness and to exert effort of Dawah among women and this is much goodness and Allaah’s aid is sought.

Likewise is the Dawah via authoring and writing, it is necessary that she is cautious in writing the Qur’aanic Ayaat and the authentic hadeeth from the Prophet -sallAllaahu alayhi wa sallam- …….. and she should not give Dawah using a microphone to amplify her voice, since the voice of the woman is a Fitnah (trial). We hear the voice of the female news presenters, may Allaah purify the radio channels of the Muslims from female presenters, and we fear for ourselves fitnah and we dislike listening to female presenters.

So, we call the female Da’yeeyat if you establish this obligation then you are upon great, great goodness.’

[Tape: Asilah al-Akhawat al-Jazareeyat side B]



Arabic

رقم 5

الشيخ مقبل الوادعي-رحمه الله تعالى-

السؤال: ما هو عمل المرأة الداعية تقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “بلغوا عني ولو آية وتقول : من كتم علما لجم به يوم القيامة ” فهل على المرأة أن تعلم كل ما تتعلمه وإن كانت أوضاعها لا تسمح بذلك؟

الجواب: الله سبحانه وتعالى يقول: [فاتقوا الله ما استطعتم] التغابن 16

وأنا أنصحها أن تحفظ من رياض الصالحين ومن اللؤلؤ والمرجان فيما اتفق عليه الشيخان ومن الآيات القرآنية وتقوم تدعو إلى الله بين النساء وينبغي إذا رأت أنها تؤثر حتى ولو تركت بعض أعمالها  فأعداء الإسلام يصعدون إلى قمم الجبال وإلى جميع الأماكن يقطعون الفيافي والقفار من أجل أن يدعوا المسلمين إلى الإلحاد أو إلى النصرانية أو إلى غير ذلك من الملل الكافرة.

فجدير بنا أن ندعو إلى الله سبحانه وتعالى ونجد ونجتهد ولا يجوز أن تقوم المرأة خطيبة بين الرجال ولا مدرسة للرجال  فإنها فتنة كما تقدم ولكن تعلم أخواتها وتعلم الأطفال الصغار الذين لا يشتهون النساء أما أن تقوم بين الرجال تخطبهم وتدعوهم فلا, لا يجوز هذا وتقوم بواجبها عند النساء فنساء المسلمين أغلبهن يعتقدن في غير الله  فتلك تدعو الخمسة وتلك تدعو علي بن أبي طالب وتلك تدعو الحسن وتلك تدعو الحسين وتلك وتلك.

ثم بعدها أيضا ربما من نساء المسلمين من إذا ظلمت تنظر إلى السماء وتقول:

انظر إلى الله ما أوسعه فهي تظن أن السماء هي الله سبحانه وتعالى  فنحن محتاجون وأنتن محتاجات إلى جد واجتهاد في الدعوة في أوساط النساء وهذا خير كثير والله المستعان.

وكذلك الدعوة بالتأليف وينبغي أن تتحرى في التأليف آية قرآنية وحديثا صحيحا عن النبي صلى الله عليه وسلم …ولا تدعو بواسطة مكبر صوت فإن صوت المرأة فتنة ونحن نسمع المذيعات طهر الله إذاعات المسلمين من المذيعات ونخشى على أنفسنا الفتنة ونكره سماع المذيعات.

ادعين النساء وإذا قمتن بهذا الواجب فأنتن على خير جدا  جدا.

المصدر: شريط أسئلة الأخوات الجزائريات ج/2



نمبر5
فتاویٰ شیخ مقبل بن ہادی الوداعی – اللہ تعالی ان پر رحم فرمائے – (متوفی 1422 ھ)

ایک داعیہ عورت کو کیا کام کرنے چاہئیں

الشیخ مقبل الوادعی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ
ایک داعیہ عورت کو کیا کام کرنے چاہئیں جبکہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
پہنچا دو میری طرف سے خواہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو اور اسی طرح آپ کا یہ بھی فرمان ہے کہ جو شخص علم چھپاتا ہے قیامت والے دن اسے لگام پہنا دیا جائے گا اور کیا عورت کے لیے بھی ضروری ہے کہ جو اس نے دینی تعلیم حاصل کی وہ آگے پہنچائے ,اگرچہ اس عورت کے حالات اس کو اجازت نہ دیتے ہوں

تو شیخ مقبل الوادعی نے جواب دیا فاتقوا اللہ ما استطعتم
کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ اللہ تعالی سے ڈرو جتنی تم استطاعت رکھتے ہو
اور میں اس عورت کو نصیحت کرتا ہوں کے ریاض الصالحین جو کتاب ہے اس میں سے کچھ یاد کر لے ,اور اسی طرح جو کتاب اللؤلؤ والمرجان ہے اس میں سے بھی کچھ احادیث یاد کر لے
وہ احادیث جس پر امام مسلم اور بخاری رحمھما الله نے اتفاق کیا . اسی طرح قرآن پاک کی کچھ آیات سے بھی یاد کر لے،
پھر وہ عورتوں کے درمیان اللہ تعالی کی طرف دعوت دینے کے لیے کھڑی ہو جائے ,یہ مناسب ہے کہ جب وہ دیکھے کہ اس کی دعوت کا اثر عورتوں پر ہو رہا ہے تو اس صورتحال میں اگر بعض اعمال چھوڑ دے اس اثر اندوز ہونے والی)دعوت کی خاطر تو بھی کوئی حرج نہیں
اسلام کے جو دشمن ہیں وہ پہاڑوں کی چوٹیوں تک کا سفر کرتے ہیں اور بھی سب جگہوں پر (پہنچتے ہیں( اور وہ میدانوں کواور بنجر زمینوں کو عبور کرتے ہیں تاکہ وہ مسلمانوں کوالحاد کی طرف دعوت دے سکیں۔ یعنی وہ اسلام چھوڑ کر کافر ، کرسچن یا کوئی اور کفریہ دین و مذھب اختیار کر لیں۔ تو ہمارے لئےیہ زیادہ قابل غور بات ہے کہ ہم دعوت دیں اللہ تعالی کی طرف پوری محنت اور کوشش کے ساتھ ۔
عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مردوں کے درمیان وعظ و نصیحت کرے اور لیکچر دے اور خطبے دے یہ( بالکل بھی )جائز نہیں’اور نہ ہی ایسی جگہ جہاں مردوں کی پڑھانے کی جگہ ہو, لیکن وہ تعلیم دے سکتی ہے ایسےچھوٹے بچوں کو بھی جن اندر عورتوں سے خواھشات کے میلان نہ ہوں ،
رہی بات کہ وہ مردوں کے درمیان کھڑی ہو کر خطبہ دے یا لیکچر دے یا وہ دعوت کے کام کرے تو یہ اس کے لئے بالکل بھی جائز نہیں ہے .
اس واجب کو ادا کرنا ہے تو وہ عورتوں کے پاس ادا کرے ،عمومی طور پر اکثر مسلمانوں کی عورتیں غیراللہ کے بارے میں عقیدہ رکھتی ہیں. یعنی شرکیہ عقیدہ رکھتی ہیں تو وہ عورت پانچ کی طرف دعوت دیتی ھے اور علی بن ابی طالب کی طرف بلاتی ہے اور ایسے ہی وہ حسن و حسین کی طرف دعوت دیتی ہے اور بلاتی ہے۔ اسی طرح وہ شرکیہ دعوت دیتی رہتی ہے
پھر اس کے بعدایسے ہی بعض مسلمان عورتوں میں سے جب اس پر کسی قسم کا ظلم ہو جائے تو وہ آسمان کودیکھتی ہے اور وہ کہتی ہےکہ دیکھو اللہ کی طرف کتناوسیع وکشادہ ھے اس کے ذہن میں اور گمان میں یہ ہوتا ہے کہ آسمان ہی اللہ تعالی ہے .تو اس لیے ہم بھی ضرورت مند ہیں ،اور تم عورتوں کو بھی ضرورت ھے دعوت کے میدان میں عورتوں کے درمیان محنت اور اجتہاد کی. اس میں بہت زیادہ خیر اور بھلائ ہے اور اللہ تعالی ہماری مدد کرنے والا ہے ،اور اسی طرح جوڑنے کے لیے دعوت دینا. اور زیادہ اولی یہی ہے کہ کہ وہ قرآن پاک کی آیات اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث تلاش کرکے لوگوں کو جوڑے ,
اور لاؤڈ سپیکر کے ذریعے سے بھی دعوت نہ دے کیونکہ عورت کی آواز بھی فتنہ ہے اور ہم سنتے ہیں جو چینل پر عورتیں آتی ہیں (پروگرامز میں شمولیت کے لیے) اللہ تعالی ہمارے چینلوں کو ان پروگراموں میں شامل ہونے والی اینکر عورتوں سے پاک کرے ۔اور ہم اپنے نفس کے فتنے سے ڈرتے ہیں اور ہم نا پسند کرتے ہیں ان اینکر عورتوں کے (پروگرام) کو سننا’
آپ عورتوں کو دعوت دیں اور جب آپ اس واجب کو ادا کریں گی تو پھر یقینا تم بہت بہت خیر پر ہونگیں ۔
المصدر: شريط أسئلة الأخوات الجزائريات ج/2