Part 4
Threatening With Divorce
Taken from
The Fatawa of the Senior Scholars
Part Four
Shaykh AbdulAziz bin Baz
Translated By Abbas Abu Yahya
4 – The Ruling on a man always threatening his wife with divorce
– Shaykh AbdulAziz bin Abdullaah bin Baz
Question:
A question from one of the sisters, where she says, I am a woman who has reached nearly forty years of age. I have lived with my husband through hardships and ease and have had six sons and four daughters from him other than those whom Allaah has caused to pass away whilst they were small.
However, when he gets angry about any matter of the worldly matters, whether those matters are related to what occurs in the home or outside the home, he would say things to me which make my hair go white. Some of those things are oppressive and slanders.
Although, I am patient and I say: this is my husband, the father of my children and I will be rewarded for my patience.
However, what I would like to ask about is, he says when he gets angry and he repeats three statements and evicts me from the home, I do not know what those three statements are?!
However, as is well known that they are statements which separate between a man and women, so, what is your opinion about this man, may Allaah reward you with goodness.
The Answer:
We advise you with patience and gaining reward, and with making Dua for him for guidance. Also, that Allaah gives him the capability and guides him to hold back his tongue, so that he guards his tongue from belittling speech. Dua is a matter which is required from both men and women.
Allaah says:
ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
<< “Invoke Me I will respond to your (invocation). >> [Ghafir: 60]
And Allaah Subhanahu is the One who said:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ [البقرة:186]
<< And when My slaves ask you concerning Me, then (answer them), I am indeed near (to them by My Knowledge). I respond to the invocations of the supplicant when he calls on Me (without any mediator or intercessor).>> [Baqarah: 186]
You are thanked for your patience and gaining a reward, and your sufferance from this man who says that which is not allowed when he gets angry. Along with giving advice, give it to him at the time when he is calm. You should give him advice with good speech and forbearance and you should not say statements which annoy and harm, since it causes him to be sinful due to it, and they harm him.
As for those three statements and him evicting you, then this does not harm you, as long as he did not say the words of divorce then it does not harm, if he has said them three times, then the meaning is that he is threatening you, it is a threat, meaning: behave yourself otherwise I will divorce you, this is the meaning of a threat, it does not harm you, and there is no worry for you since it is from the point of a threat.’
[https://al-fatawa.com/fatwa/81815]
Arabic Reference
حكم الإكثار من تهديد الرجل أهله بالطلاق
الشيخ عبدالعزيز ابن باز
السؤال:
من إحدى الأخوات المستمعات رمزت إلى اسمها بالحروف (خ. ك. ز)، من الباحة، تقول فيها: إنها امرأة تبلغ من العمر قرابة الأربعين عامًا، عشت مع زوجي وشاركته السراء والضراء، ولي منه ستة أولاد ذكور وأربع بنات غير الذين توفاهم الله في صغرهم، ولكنه إذا غضب لأي أمر من أمور دنياه سواء كان ذلك الأمر من أجل البيت أو خارج البيت يقول لي أقوالاً تشيب الرءوس منها ظلمًا وبهتانًا ولكني أصبر وأقول: هذا زوجي وأبو عيالي وسوف ألقى الجزاء على صبري، لكن الذي أود السؤال عنه قوله حينما يغضب يردد قوله قائلاً: ثلاث كلمات وتخرجين من البيت، لا علم لي عن تلك الثلاث الكلمات ما هي؟! ولكن كما هو معروف أنها كلمات الفصل بين الرجل والمرأة، فما رأيكم في قول هذا الرجل جزاكم الله خيرًا؟
الجواب:
نوصيك بالصبر والاحتساب، والدعاء له بالهداية، وأن الله يوفقه ويهديه حتى يحفظ لسانه، وحتى يصون لسانه من الكلمات البذيئة، فالدعاء أمر مطلوب من المرأة والرجل، جميعًا، الله يقول: ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [غافر:60] وهو سبحانه القائل: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ [البقرة:186] وأنت مشكورة على الصبر، والاحتساب، والتحمل من هذا الرجل الذي يتكلم بما لا ينبغي إذا غضب، مع النصيحة له في وقت الهدوء، تنصحينه بالكلام الطيب والتحمل وعدم إطلاق الكلمات التي تؤذي وتضر؛ لأنه يأثم بها وتضره.
أما قوله: ثلاث كلمات وتخرجين، هذا لا يضرك، مادام ما قالها لا يضر، إذا كان قال ثلاث.. معناه يتوعد، معناها الوعيد، يعني: تأدبي وإلا طلقت فهذا معناه الوعيد، لا يضرك، ولا حرج عليك فيه من باب الوعيد. نعم.
https://al-fatawa.com/fatwa/81815
شوہر کا اپنی بیوی کو کثرت سے طلاق دینے کی دھمکی دینے کا حکم*
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمه الله
سوال:
باحہ سے تعلق رکھنے والی ایک سننے والی بہن جنہوں نے اپنا نام (خ. ك. ز) کے حروف سے ظاہر کیا ہے، اپنے سوال میں کہتی ہیں: “میری عمر تقریباً چالیس سال ہے۔ میں نے اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزاری اور خوشی و غم میں اس کا ساتھ دیا۔ میرے اس سے چھ بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، علاوہ ان بچوں کے جو بچپن میں ہی انتقال کرگئے۔ لیکن جب میرے شوہر کو دنیا کے کسی بھی معاملے پر، چاہے وہ گھر کا ہو یا باہر کا، غصہ آتا ہے تو وہ مجھے ایسے الفاظ کہتے ہیں جو ظلم اور تہمت پر مبنی ہوتے ہیں، جنہیں سن کر بال سفید ہوجائیں۔ مگر میں صبر کرتی ہوں اور کہتی ہوں کہ یہ میرا شوہر اور میرے بچوں کا باپ ہے، اور صبر کے بدلے مجھے جزا ملے گا۔ لیکن میں اسکی اس بات کے بارے میں پوچھنا چاہتی ہوں جو وہ غصے کی حالت میں یوں کہتے ہیں: ’تین الفاظ اور تم گھر سے نکل جاؤ گی،‘ تو ان تین الفاظ کا مجھے علم نہیں کہ وہ کیا ہیں؟ لیکن جیسا کہ معروف ہے، یہ مرد اور عورت کے درمیان علیحدگی کے الفاظ ہوتے ہیں۔ تو آپ کی اس آدمی کے اس قول کے بارے میں کیا رائے ہے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔”
جواب:
ہم آپ کو صبر کرنے، اجر کی نیت رکھنے، اور شوہر کے لیے ہدایت کی یہ دعا کرنے کی نصیحت کرتے ہیں، کہ اللہ اسے توفیق دے اور راہ راست پر رکھے تاکہ وہ اپنی زبان کی حفاظت کرے، اور اپنی زبان کو برے اور گندے سے بچائے۔ دعا کرنا مرد اور عورت دونوں کے لیے مطلوب ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: “ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ” [غافر:60] (ترجمہ: مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا)، اور اللہ سبحانه وتعالى فرماتا ہے:” وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ” [البقرة:186] (ترجمہ: جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں)۔
اور آپ صبر، ثواب کی نیت اور اس شخص کے رویے کو برداشت کرنے پر مشکور ہیں، جو غصے میں ایسی الفاظ کہتا ہے جو مناسب نہیں (نہیں کرنی چاہئیں)۔ تاہم، آپ کو نصیحت ہے کہ جب وہ پرسکون ہوں تو آپ اسے نصیحت کریں، اسے نصیحت کریں کہ وہ اچھی بات کرے، صبر وتحمل کا مظاہرہ کرے، اور ایسی باتیں زبان سے نہ نکالے جو دوسروں کو اذیت پہنچائیں یا نقصان دیں، کیونکہ ایسی باتوں سے اسے گناہ بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی۔
جہاں تک اس کے یہ کہنے کا تعلق ہے: “تین الفاظ اور تم گھر سے نکل جاؤ گی” تو یہ آپ کے لیے کوئی نقصان دہ بات نہیں، جب تک کہ وہ تین الفاظ صراحت سے نہ کہے۔ اگر وہ صرف “تین۔۔۔۔” کہہ رہا ہو، تو یہ محض دھمکی یا وارننگ کے طور پر ہے، یعنی “سنبھل جاؤ ورنہ میں طلاق دوں گا۔” یہ محض وعید ہے اور آپ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا، اور نہ ہی اس میں کوئی حرج کی بات ہے۔ یہ صرف دھمکی کے زمرے میں آتا ہے۔ جی ہاں۔